اداس ہوں پر نیا بہانہ بنا رہی ہوں

اداس ہوں  پر نیا بہانہ بنا رہی ہوں
سنو میں مصروف ہوں میں کھانا بنا رہی ہوں
نئے لبادے میں تنگ ہوتی تھی اس لئے تو
نئے تعلق کو بھی پرانا بنا رہی ہوں
میں پھینک آئی ہوں وہ انگوٹھی گلی سے باہر
تری نشانی کو اب نشانہ بنا رہی ہوں
جھٹک دئیے ہیں قدیم لفظوں سے باندھے منظر
میں اپنے لہجے کو یوں توانا بنا رہی ہوں
بہت سے رازوں کو کیبنٹ سے نکال لونگی
میں دل کے اندر بھی ایک خانہ بنا رہی ہوں
یہ پیڑ پودے یہ پھول کانٹے بھی جانتے ہیں
میں صرف امکانِ وصلِ جاناں بنا رہی ہوں
مجھے نبھانی ہے دشمنی دوستوں سے کومل
ابھی تو دشمن سے دوستانہ بنا رہی ہوں

کومل جوئیہ

Comments