ساتھ دریا کے ہم بھی جائیں کیا

ساتھ دریا کے ہم بھی جائیں کیا
زور لہروں کا آزمائیں کیا
پیڑ سارے اجڑ چکے کب کے
شور کرتی ہیں پھر ہوائیں کیا
کب وہ گزرے گی اس خرابے سے
فصل گل سے یہ پوچھ آئیں کیا
پھول باغوں میں جب نہیں کھلتے
پھول گملوں میں ہم کھلائیں کیا
رات جنگل کی شہر میں آئی
گھر چراغوں سے جگمگائیں کیا
جو خدا ہے کبھی تو سوچے وہ
ایک دنیا نئی بنائیں کیا
خوف کیسا ہے شام سے فکریؔ
آج اتریں گی پھر بلائیں کیا
پرکاش فکری

Comments