اس رنج سے عشاق نے چھوڑا ہے سمندر

اِس رنج سے عُشاق نے چھوڑا ہے سمندر
تسکینِ لبِ ہجر کو تھوڑا ہے سمندر
چُن چُن کے پہاڑوں سے ندی نالوں کے ٹکڑے
دریاوں نے ٹوٹا ہوا جوڑا ہے سمندر
اے دستِ مشقت!! ترا احسان ہےتو نے
مجھ شہر کو آتا ہوا موڑا ہے سمندر
طوفان اٹھایا ہے تری ذات نے تجھ میں
اور تو نے ستم خاک پہ توڑا ہے سمندر
سورج نے اِسے اِتنا پریشان کیا ہے
روتے ہوئے مہتاب نے چھوڑا ہے سمندر
کاندھوں پہ اٹھائی ہے جواں بیٹے کی میت
رونے کو مِرے اِس لیے تھوڑا ہے سمندر
کبیر اطہر

Comments