Posts

Showing posts from February, 2018

اک درد سا پہلو میں مچلتا ہے سر شام

میں بتا دوں تمہیں ہربات ضروری تو نہیں

یوں ہی بے سبب نہ پھرا کرو کوئی شام گھر میں رہا کرو

جس جگہ بیٹھنا دکھ درد ہی گانا ہمکو

کسی انسان کو اپنا نہیں رہنے دیتے

ابھی اس طرف نہ نگاہ کر میں غزل کی پلکیں سنوار لوں 

کنول ملک کی شاعری

امید اور ناامیدی پر منتخب اشعار اشعار

تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے 

بات سمجھا نہیں آپ کی، معذرت

یہی ہونا تھا اور ہُوا جاناں

بیٹیاں پھول ہیں

نعتیہ کلام

دیواریں چھوٹی ہوتی تھیں لیکن پردہ ہوتا تھا

مسلسل روکتی ہوں اس کو شہر دل میں آنے سے

مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے

اُن کی سنجیدہ ملاقات سے دُکھ پہنچا ہے

لوگ عبرت کی سناتے ہیں کہانی میری 

اُنہیں نِگاہ ہے اپنے جَمال ہی کی طرف

ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں 

ﺩﮐﮫ ﮐﺎ ﻣﻨﺘﺮ ﭘﮍﮬﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﻮﮞ

جون تمہیں یہ دور مبارک، دور غم ایام سے ہو

کِس کِس نے ساتھ چھوڑ دِیا دُھوپ چھاؤں میں

تیرے آفت زدہ جن دشتوں میں اڑ جاتے ہیں 

تاثیر پسِ مرگ دِکھائی ہے وفا نے

آنکھوں کا رنگ ، بات کا لہجہ بدل گیا​

مرے خلاف عدالت بھی تھی زمانہ بھی

یہ دل لگی بھی قیامت کی دل لگی ہوگی

چراغ خود ہی بجھایا بجھا کے چھوڑ دیا 

یوں کوئی چھوڑ دیا کرتا ہے اپنا کر کے

ﻏﻢ ﮨﺎﺋﮯ ﺭﻭﺯ ﮔﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﺠﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ

کبھی کبھی تو یہ حالت بھی کی محبت نے 

نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم

تیری رحمتوں کے دیار میں تیرے بادلوں کو پتا نہیں

کہا تھا ہم نے تجھے تو اے دل کہ چاہ کی مے کو تو نہ پینا 

مجھ سے اونچا ترا قد ہے حد ہے

منہ پھر نہ کر وطن کی طرف یوں وطن کو چھوڑ

محبت کا اثر ہوگا ، غلط فہمی میں مت رہنا 

اور بھی ہو گئے بیگانہ وہ، غفلت کرکے

میں تو جو بھی لِکھتا ہوں، دِل کیساتھ لِکھتا ہُوں

آئے تھے اُن کے ساتھ ، نظارے چلے گئے

خودداریوں کے خون کو ارزاں نہ کر سکے 

یاد ، فیض احمد فیض کی نظم ، شاعری

گلہ فضول تھا عہد وفا کے ہوتے ہوئے 

آنکھوں سے خواب دل سے تمنا تمام شد 

میرے کمرے میں اک ایسی کھڑکی ہے 

نہ سہی کچھ مگر اتنا تو کیا کرتے تھے 

گم صم ہوا آواز کا دریا تھا جو اک شخص

اسے اب کے وفاؤں سے گزر جانے کی جلدی تھی 

اس سے پہلے کہ مجھے وقت علیحدہ رکھ دے 

جو چراغ سارے بجھا چکے انہیں انتظار کہاں رہا

کوئی اٹکا ہوا ہے پل شاید 

درد ہلکا ہے سانس بھاری ہے

گزرا شباب دل کو لگانے کے دن گئے

بات قسمت کی تو کچھ اے دل ناکام نہیں 

ساقی نظر سے پنہاں، شیشے تہی تہی سے

اتنا تو دوستی کا صلہ دیجئے مجھے