امید اور ناامیدی پر منتخب اشعار اشعار

ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
غالب
.......
اب تک دل خوش فہم کو تجھ سے ہیں امیدیں
یہ آخری شمعیں بھی بجھانے کے لیے آ
احمد فراز
.....
کس سے امید کریں کوئی علاج دل کی
چارہ گر بھی تو بہت درد کا مارا نکلا
لطف الرحمن
......
آرزو حسرت اور امید شکایت آنسو
اک ترا ذکر تھا اور بیچ میں کیا کیا نکلا
سرور عالم راز
.....
بچھڑ کے تجھ سے مجھے ہے امید ملنے کی
سنا ہے روح کو آنا ہے پھر بدن کی طرف
نظم طبا طبائی
.....
ہوگی اک دن گھر مرے پھولوں کی برسات
میں پگلا اس آس میں ہنستا ہوں دن رات
بھگوان داس اعجاز
.....
نہ کوئی وعدہ نہ کوئی یقیں نہ کوئی امید
مگر ہمیں تو ترا انتظار کرنا تھا
فراق گورکھپوری
......
پھر مری آس بڑھا کر مجھے مایوس نہ کر
حاصل غم کو خدا را غم حاصل نہ بنا
حمایت علی شاعرؔ
.....
پوری ہوتی ہیں تصور میں امیدیں کیا کیا
دل میں سب کچھ ہے مگر پیش نظر کچھ بھی نہیں
مادھو رام جوہر
.....
امید و بیم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں
ذرا سی دیر کو دنیا سے کٹ کے دیکھتے ہیں
افتخار عارف
.....
امید تو بندھ جاتی تسکین تو ہو جاتی
 وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا
چراغ حسن حسرت
وہ امید کیا جس کی ہو انتہا
وہ وعدہ نہیں جو وفا ہو گیا
الطاف حسین حالی
.....
یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے
آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا
شکیل بدایونی 
......
بس اب تو دامن دل چھوڑ دو بیکار امیدو
بہت دکھ سہہ لیے میں نے بہت دن جی لیا میں نے
ساحر لدھیانوی 
.....
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
فیض احمد فیض 
......
ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ
اس کے بعد تو جو کچھ ہے وہ سب افسانہ ہے
افتخار عارف
......
اسی امید پر تو جی رہے ہیں ہجر کے مارے
کبھی تو رخ سے اٹھے گی نقاب آہستہ آہستہ
ہاشم علی خاں دلازاک 
.....
اتنا بھی ناامید دل کم نظر نہ ہو
ممکن نہیں کہ شام الم کی سحر نہ ہو
نریش کمار شاد
.....
کہتے ہیں کہ امید پہ جیتا ہے زمانہ
وہ کیا کرے جس کو کوئی امید نہیں ہو
آسی الدنی
.....
خواب، امید، تمنائیں، تعلق، رشتے
جان لے لیتے ہیں آخر یہ سہارے سارے
عمران الحق چوہان
.....
کچھ کٹی ہمت سوال میں عمر
کچھ امید جواب میں گزری
 فانی بدایونی 
....
میں اب کسی کی بھی امید توڑ سکتا ہوں
مجھے کسی پہ بھی اب کوئی اعتبار نہیں
جواد شیخ 
.....
سایہ ہے کم کھجور کے اونچے درخت کا
امید باندھئے نہ بڑے آدمی کے ساتھ
کیفؔ بھوپالی 
......
ترک امید بس کی بات نہیں
ورنہ امید کب بر آئی ہے
فانی بدایونی 
.....
ترے وعدوں پہ کہاں تک مرا دل فریب کھائے
کوئی ایسا کر بہانہ مری آس ٹوٹ جائے
فنا نظامی کانپوری
...
تم کہاں وصل کہاں وصل کی امید کہاں
دل کے بہکانے کو اک بات بنا رکھی ہے
آغا شاعر قزلباش
....
امید وصل نے دھوکے دیئے ہیں اس قدر حسرتؔ
کہ اس کافر کی ہاں بھی اب نہیں معلوم ہوتی ہے
 چراغ حسن حسرت 
.....
یہی ہے زندگی کچھ خواب چند امیدیں
انہیں کھلونوں سے تم بھی بہل سکو تو چلو
ندا فاضلی 

Comments