منتخب غزلیں



پھر میرے شہر سے گزرا ہے وہ بادل کی طرح 
 دستِ گل پھیلا ہوا ہے مرے آنچل کی طرح
کہہ رہا ہے کسی موسم کی کہانی اب تک 
 جسم برسات میں بھیگے ہوئے جنگل کی طرح
اونچی آواز میں اس نے تو کبھی بات نہ کی 
 خفگیوں میں بھی وہ لہجہ رہا کومل کی طرح 
مل کے اس شخص سے میں لاکھ خموشی سے چلوں 
بول اٹھتی ہے نظر پاؤں کی  چھاگل کی طرح 
پاس جب تک وہ رہے درد تھما رہتا ہے 
 پھیلتا جاتا ہے پھر آنکھ میں کاجل کی طرح
اب کسی طور سے گھر جانے کی صورت ہی نہیں 
 راستے میرے لئے ھو گئے دلدل کی طرح 
جسم کے تیرہ و آسیب زدہ مندر میں 
 دل سرِ شام سُلگ اُٹھتا ہے صندل کی طرح
پروین شاکر 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
رات پھیلی ہے تیرے سُرمئی آنچل کی طرح 
 چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے پاگل کی طرح 
خشک پتوں کی طرح لوگ اُڑے جاتے ہیں
 شہر بھی اب تو نظر آتا ہے جنگل کی طرح
پھر خیالوں میں تیرے قرب کی خوشبو جاگی 
 پھر برسنے لگی آنکھیں میری بادل کی طرح 
بے وفاؤں سے وفا کر کے گزاری ہے حیات
 میں برستا رہا ویرانوں میں بادل کی طرح
کلیم عثمانی

Comments