وصل کی رات تو راحت سے بسر ہونے دو 

وصل کی رات تو راحت سے بسر ہونے دو 
شام ہی سے یہ دھمکی کہ سحر ہونے دو 

ناوکِ ناز کا پہلو میں گزر ہونے دو 
کب سے برباد ہے آباد یہ گھر ہونے دو

دیکھنا کیسی برابر پڑینگی چوٹین 
یار کا آئینہ خانے میں گزر ہونے دو 

وصل ہو قتل ہو جو مد نظر ہو ہو جائے 
یا اِدھر ہونے دو یا مجھ کو اُدھر ہونے دو 

جس نے یہ درد دیا ہے وہ دوا بھی دے گا 
لا دوا ہے جو مرا درد جگر ہونے دو 

میں غریب اور غریبوں کا خُدا والی ہے 
ہونے دو سارے زمانے کو اُدھر ہونے دو

تلملانے میں تڑپنے میں کمی کی کس دن ؟
 ہے جو اس پر بھی خفا دردِ جگر ہونے دو

ذکر رخصت کا ابھی سے نہ کرو بیٹھو بھی 
جان من رات گزرنے دو سحر ہونے دو

ہم تصور میں نہ کھینچیں یہ نہ ہو گا ہم سے 
لاکھ نازک ہے حسینوں کی کمر ہونے دو

وصل دشمن کی خبر مجھ سے ابھی کچھ نہ کہو 
ٹھرو ٹھرو مجھے اپنی تو خبر ہونے دو

ہاے وہ وصل کی شب اُن کا ادا سے کہنا 
باندھنے دو مجھے جُوڑے کو سحر ہونے دو

جاگ کر کاٹتے ہیں ہجر میں ہم بھی راتیں 
رتجگے ہوتے ہیں گر غیر کے گھر ہونے دو

شوق سے تم ہو در و بام پہ سر گرمِ خرام 
دونوں عالم ہوں اگر زیر و زبر ہونے دو

آنے دو آنے دو زلفوں کو ذرا گالوں پر 
شاہدِ شب کو ہم آغوش سحرِ ہونے دو
 
خواب میں آ کے وہ بولے مرے ارمانوں سے بے بے خبر کو نہ خبردرا خبر ہونے دو

چھیڑتے کیوں ہو جوانی میں حسینوں کو امیرؔ
رات ہی بحر کا یہ جوبن ہے سحر ہونے دو 
امیر مینائی

Comments