ہے انہیں دو ناموں سے ہر ایک افسانے کا نام 



ہے انہیں دو ناموں سے ہر ایک افسانے کا نام 
 ایک تیرا نام ہے اک تیرے دیوانے کا نام
تجھ سے روشن ہے چراغِ محفل دار و رسن 
 مجھ سے بھی اس دور میں زندہ ہے پروانے کا نام
تیری زلف و چشم و لب کا نام ہے میری غزل 
 تیرا اندازِ سخن میرے غزل گانے کا نام
چل اسی انداز سے ہاں چل اسی انداز سے 
 شوخیٔ باد صبا ہے تیرے اٹھلانے کا نام
موج خوشبوئے غزل بے رنگیٔ روئے غزل 
 اک ترے آنے کا ہے نام اک ترے جانے کا نام
زندۂ جاوید میری شاعری نے کر دیا 
 نام تیرے گیسوؤں کا اور مرے شانے کا نام
پھول توڑے کوئی پتھر ہم کو مارا جائے ہے 
 تو نے اتنا کر دیا بدنام دیوانے کا نام
ہم ہیں عاجزؔ آبروئے بزم یاران غزل 
 اب اسی آئینے سے ہے آئنہ خانے کا نام
کلیم عاجزؔ

Comments