اک درد سا پہلو میں مچلتا ہے سر شام



اک درد سا پہلو میں مچلتا ہے سر شام
 جب چاند جھروکے میں نکلتا ہے سر شام
بے نام سی اک آگ دہک اٹھتی ہے دل میں
 مہتاب جو ٹھنڈک سی اگلتا ہے سر شام
کچھ دیر شفق پھولتی ہے جیسے افق پر
 ایسے ہی مرا حال سنبھلتا ہے سر شام
یہ دل ہے مرا یا کسی کٹیا کا دیا ہے
 بجھتا ہے دم صبح تو جلتا ہے سر شام
بنتا ہے وہ اک چہرہ کبھی گل کبھی شعلہ
 سانچے میں خیالوں کے جو ڈھلتا ہے سر شام
چھٹ جاتی ہے آلام زمانہ کی سیاہی
 جب دور تری یاد کا چلتا ہے سر شام
میں دور بہت دور پہنچ جاتا ہوں تائبؔ
 رخ سوچ کا دھارا جو بدلتا ہے سر شام

حفیظ تائب

Comments