یہ بہار کا زمانہ، یہ حسیں گلوں کے سائے

یہ بہار کا زمانہ، یہ حسیں گلُوں کے سائے
 مجھے ڈر ہے باغباں کو، کہیں نیند آ نہ جائے
تیرے وعدوں پر کہاں تک میرا دل فریب کھائے
 کوئی ایسا کر بہانہ میری آس ٹوٹ جائے
میں چلا شراب خانے، جہاں کوئی غم نہیں ہے
 جسے دیکھنی ہو جنت میرے ساتھ ساتھ آئے
تیری سازش توجہ، یہ نہیں تو اور کیا ہے 
 میں جہاں چلا سنبھل کر وہیں پاؤں ڈگمگائے
کھلے ارضِ گلستاں میں گلِ نامراد ایسے
 نہ بہار ہی نے پوچھا نہ خزاں کے کام آئے
میرے ضبطِ غم کی عظمت کوئی ان کے دل سے پوچھے
 میرا امتحان لے کر کوئی ان کو آزمائے
فناؔ نظامی کانپوری

Comments