غیر کے نام سے پیغامِ وصال اچھا ہے 




غیر کے نام سے پیغامِ وصال اچھا ہے 
 چھیڑ کا جس میں مزا ہو وہ سوال اچھا ہے
کبھی کہتا ہوں محبّت کا مآل اچھا ہے 
 کبھی کہتا ہوں جو اب ہے وہی حال اچھا ہے
یہ بھی کہتے ہو کہ بے چین کیا کس نے تجھے 
 یہ بھی کہتے ہو مرا حسن و جمال اچھا ہے
دل تو ہم دیں گے مگر پیشتر اتنا کہہ دو 
 ہجر اچھا ہے تمہارا کہ وصال اچھا ہے
یہ تو بہتر ہے کہ دنیا میں ہو عقبیٰ کا خیال 
 کچھ تو عقبیٰ میں دنیا کا مال اچھا ہے
یہی دولت کا مزا ہے کے اڑیں گل چھرے 
 ہاتھ آتے ہی جو اڑ جائے وہ مال اچھا ہے
صلح دشمن سے بھی کر لیں گے تری خاطر سے 
 جس طرح سے ہو غرض رفعِ ملال اچھا ہے
اک دکاں میں ابھی رکھ آئے ہیں ہم اپنا دل 
 دور سے سب کو بتاتے ہیں وہ مال اچھا ہے
کیا وہ غارت گر دیں حشر سے اڑ جائے گا 
 ہر مسلماں کا سنتے ہیں مآل اچھا ہے
روزِ بد سے نہیں تا عمر محبّت میں نجات 
 موت سے سال میں آئے وہی سال اچھا ہے
اپنی تعریف سے چڑھتے ہو اگر جانے دو 
 چشمِ بد دور ہمارا ہی جمال اچھا ہے
لوگ کہتے ہیں بھلائی کا زمانہ نہ رہا 
 یہ بھی کہہ دیں کہ برائی کا مآل اچھا ہے
رقمِ شوق کی تاثیر اڑنا بہتر 
 طائرِ نامہ رسا بے پر و بال اچھا ہے
ایسے بیمار کی افسوس دوا ہو کیونکر
 ابھی دم بھر میں برا ہے ابھی حال اچھا ہے
دیکھنے والوں کی حالت نہیں دیکھی جاتی 
 جو نہ دیکھے وہی مشتاقِ جمال اچھا ہے
یا دکھا دو مجھے تم پاؤں کا ناخن اپنا 
 یا یہ کہہ دو مرے ناخن سے ہلال اچھا ہے
تم نہیں اور سہی دل کے طلب گار بہت 
 سو خریدار ہیں موجود جو مال اچھا ہے
دل میں تو خوش ہیں تسلی کو مری کہتے ہیں 
 آپ مرنے کے نہیں آپ کا حال اچھا ہے
باغِ عالم میں کوئی خاک پھلے پھولے گا 
 برق گرتی ہے اسی پر جو نہال اچھا ہے
عرصہ حشر میں سب ہو گئے خواہاں اس کے 
 لوگ کہتے ہیں اشاروں سے یہ مال اچھا ہے
ہم سے پوچھے کوئی دنیا میں ہے کیا شے اچھی 
 رنج اچھا ہے غم اچھا ہے ملال اچھا ہے
آپ پچھتاہیں نہیں جور سے توبہ نہ کریں 
 آپ گھبراہیں نہیں داغؔ کا حال اچھا ہے
داغؔ دہلوی

Comments