یہ کس ادا سے کرشمے دکھائے جاتے ہیں



یہ کس ادا سے کرشمے دکھائے جاتے ہیں
ادا شناس بھی دھوکے میں آئے جاتے ہیں
جو عمر تیری طلب میں گنوائے جاتے ہیں
کچھ ایسے لوگ بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں
بنا کے دل مری مٹی سے لائے جاتے ہیں
انھیں ستم کے سلیقے سکھائے جاتے ہیں
جنھیں سپرد ہے گلگشتِ حسن کی تعظیم
وہ پھول صبح سے پہلے کھلائے جاتے ہیں
لگاٶ ہے مری تنہائی سے بھی فطرت کو
تمام رات ستارے جگائے جاتے ہیں
سمائی جاتی ہیں دل میں وہ کفر بار آنکھیں 
یہ بتکدے مرے کعبے پہ چھائے جاتے ہیں
جو ساری رات میسر نہیں ستاروں کو
قریبِ صبح وہ جلوے دکھائے جاتے ہیں
حجاب اپنی نظر سے تو ہم اٹھا نہ سکے
انھیں کے حسن سے پردے اٹھائے جاتے ہیں
کوئی تو سرخئ افسانہ یادگار رہے
ہم اپنا خون قفس میں لگائے جاتے ہیں
دراز سلسلہ امتحانِ وحشت ہے
دل آزما کے قدم آزمائے جاتے ہیں
وہاں چمن میں ہے تعمیرِ آشیاں پہ عتاب
یہاں ہوا پہ نشیمن بنائے جاتے ہیں
کسی اسیر کے مرنے کی اڑ رہی ہے خبر
چراغ پچھلے پہر بجھائے جاتے ہیں
سمجھ حقیر نہ ان زندگی کے لمحوں کو
ارے انھیں سے زمانے بنائے جاتے ہیں
یہ دل کے داغ بھی کیا دل کے داغ ہیں سیمابؔ
 ٹپک رہے ہیں مگر مسکرائے جاتے ہیں
 سیمابؔ اکبر آبادی

Comments