کہا تھا ہم نے تجھے تو اے دل کہ چاہ کی مے کو تو نہ پینا 

کہا تھا ہم نے تجھے تو اے دل کہ چاہ کی مے کو تو نہ پینا 
جو اس کو پی کر تو ایسا بہکا کہ ہم کو مشکل ہوا ہے جینا 
جو آنکھیں چنچل کی دیکھیں ہم نے تو نوک مژگاں نے دل کو چھیدا 
نگہ نے ہوش و خرد کو لوٹا ادا نے صبر و قرار چھینا 
کہا جو ہم نے کہ آن لگیے ہمارے سینے سے اس دم اے جاں 
تو سن کے اس نے حیا کی ایسی کہ آیا منہ پر وہیں پسینہ 
کیا ہے غصہ میں ہاتھ لا کر مرا گریباں جو ٹکڑے اس نے 
پھٹا ہی رہنا ہے اب تو بہتر نہیں مناسب کچھ اس کو سینا 
کہا تھا آؤں گا دو ہی دن میں ولے نہ آیا وہ شوخ اب تک 
گنا جو ہم نے نظیرؔ دل میں تو اس سخن کو ہوا مہینہ

نظیر اکبر آبادی

Comments