جون ایلیا کی غزلیں ، ایک زمین تین غزلیں

نئی خواہش رچائی جا رہی ہے
 تیری فُرقت منائی جا رہی ہے
نبھائی تھی نہ ہم نے جانے کس سے
 کہ اب سب سے نبھائی جا رہی ہے
ہمارے دل محلے کی گلی سے
 ہماری لاش لائی جا رہی ہے
کہاں لذت وہ سوزِ جستجو کی
 یہاں ہر چیز پائی جا رہی ہے
خوشا اِحوال اپنی زندگی کا
 سلیقے سے گنوائی جا رہی ہے
دریچوں سے تھا اپنے بیر ہم کو
 سو خود دیمک لگائی جا رہی ہے
یہ ہے تعمیرِ دنیا کا زمانہ
 حویلی دل کی ڈھائی جا رہی ہے
سُن اے سورج جدائی موسموں کے!
 میری کیاری جلائی جا رہی ہے
بہت بدحال ہیں بستی، تیرے لوگ
 تو پھر تُو کیوں سجائی جا رہی ہے
مجھے اب ہوش آتا جا رہا ہے
 خدا تیری خدائی جا رہی ہے
جون ایلیا
چلو بادِ بہاری جا رہی ہے
 پِیا جی کی سواری جا رہی ہے
شمالِ جاودانِ سبز جاں سے
 تمنا کی عماری جا رہی ہے
فغاں اے دشمنی دارِ دل و جاں
 مری حالت سُدھاری جا رہی ہے
جو اِن روزوں مرا غم ہے وہ یہ ہے
 کہ غم سے بُردباری جا رہی ہے
ہے سینے میں عجب اک حشر برپا
 کہ دل سے بے قراری جا رہی ہے
میں پیہم ہار کر یہ سوچتا ہے
 وہ کیا شہ ہے جو ہاری جا رہی ہے
دل اُس کے رُو برو ہے اور گُم صُم
 کوئی عرضی گزاری جا رہی ہے
وہ سید بچہ ہو اور شیخ کے ساتھ
 میاں عزت ہماری جا رہی ہے
ہے برپا ہر گلی میں شورِ نغمہ
 مری فریاد ماری جا رہی ہے
وہ یاد اب ہو رہی ہے دل سے رُخصت
 میاں پیاروں کی پیاری جا رہی ہے
دریغا ! تیری نزدیکی میاں جان
 تری دوری پہ واری جا رہی ہے
بہت بدحال ہیں بستی ترے لوگ
 تو پھر تُو کیوں سنواری جا رہی ہے
تری مرہم نگاہی اے مسیحا!
 خراشِ دل پہ واری جا رہی ہے
خرابے میں عجب تھا شور برپا
 دلوں سے انتظاری جا رہی ہے
جون ایلیا
تری قیمت گھٹائی جا رہی ہے
 مجھے فرقت سکھائی جا رہی ہے
یہ ہے تعمیرِ دنیا کا زمانہ
 حویلی دل کی ڈھائی جا رہی ہے
وہ شے جو صرف ہندوستان کی تھی
 وہ پاکستان لائی جا رہی ہے
کہاں کا دین، کیسا دین، کیا دین
 یہ کیا گڑ بڑ مچائی جا رہی ہے
شعورِ آدمی کی سر زمیں تک
 خدا کی اب دُہائی جا رہی ہے
بہت سی صورتیں منظر میں لا کر
 تمنا آزمائی جا رہی ہے
مجھے اب ہوش آتا جا رہا ہے
 خدا تیری خدائی جا رہی ہے
نہیں معلوم کیا سازش ہے دل کی
 کہ خود ہی مات کھائی جا رہی ہے
ہے ویرانی کی دھوپ اور ایک آنگن
 اور اس پر لُو چلائی جا رہی ہے
جون ایلیا

Comments