Posts

Showing posts from May, 2019

اگر اے نسیم سحر ترا ہو گزر دیار حجاز میں

بازو در عرفاں کا ہے بازوئے محمد

قہقہوں کے تیر برسائے تو گھائل میں بھی تھا​

اب بھلے دیکھتا رہے جس کو

یہ چاند اور یہ ابر رواں گذرتا رہے

دشت طلب میں دھوپ کو ہم نے سائے سے تعبیر کیا

آگ کے درمیان سے نکلا

بادل کالا کوئل کالی اس سے کالی رات ہے

ضبط کے امتحان سے نکلا

خرید کر جو پرندے اڑائے جاتے ہیں‌

درگزر جتنا کیا ہے وہی کافی ہے مجھے

داستان لب و رخسار سے آگے نہ بڑھو

مسکن وہیں کہیں ہے وہیں آشیاں کہیں

گھر سے جنگل کی طرف جب تیرا دیوانہ چلا

جھوٹوں نے جھوٹوں سے کہا ہے سچ بولو

بس ایک جسم ایک ہی قد میں پڑا رہوں

انجم سلیمی ، نظم

اتنا ٹھہرا ہوا ماحول بدلنا پڑ جائے

میں تہی دست محبت میں بھلا کیا دیتا

میری آنکھوں کا تسلسل تری آنکھیں ہی نہ ہوں

کس نے پھر چھیڑ دیا قصہ لیلائے حجاز

یہ جلوہ حق سبحان اللہ یہ نور ہدایت کیا کہنا

الہی عشق دے اس کا مدینہ کا جو سلطاں ہے

نگاہ عاشق کی دیکھ لیتی ہے پردہ میم کو اٹھا کر

سراجا منیرا نگار مدینہ

عدم سے لائی ہے ہستی میں آرزوئے رسول

حضور دہر میں آسودگی نہیں ملتی

بن آئی تیری شفاعت سے رو سیاہوں کی

جی رہا ہوں میں اس دیار سے دور

ہم مریدوں کو یوں مراد ملی

مائل جور سب خدائی ہے

میں چلتے چلتے اپنے گھر کا رستہ بھول جاتا ہوں

سڑکوں پہ گھومنے کو نکلتے ہیں شام سے

کہ میں بھٹکوں تو بھٹک کر بھی اسی تک پہنچوں

کیسی بخشش کا یہ سامان ہوا پھرتا ہے

ظاہری طور طریقے کو کہاں مانتے تھے

امتحان شوق میں ثابت قدم ہوتا نہیں 

اب اس جانب سے اس کثرت سے تحفے آرہے ہیں

بہت رک رک کے چلتی ہے ہوا خالی مکانوں میں

سر طور کوئی جائے اسے آپ کیا کہیں گے​

محمد مصطفیٰ محبوب داور سرور عالم​