نقاب اڑا تو مجھے سرخ لب دکھائی دیئے

نقاب اڑا تو مجھے سرخ لب دکھائی دیئے
وہ دو دیے جو ہوا کے سبب دکھائی دیئے
میں جزوی اندھا تھا، دو چار رنگ دکھتے تھے
جب اس نے مجھ سے کہا، "دیکھ"، سب دکھائی دیئے
کسی کے ساتھ کسی باغ میں ٹہلتے ہوئے
تمام پھول بہت با ادب دکھائی دیئے
خلا میں گھوروں تو جو چہرے بننے لگتے ہیں
پتہ نہیں یہ کہاں اور کب دکھائی دیئے
دبے ہوئے تھے کئی خواب آنسوؤں کے تلے
میں رو کے سویا ہوں اک شام، تب دکھائی دیئے
نظر جھکی ہی نہیں اس سے قبل، حیرت ہے
کہ اس کے پاؤں، بچھڑنے کی شب دکھائی دیئے
سفر میں جانا، مرے دوست وہ نہیں جو لگے
نظر تو آتے تھے ہر روز، اب دکھائی دیئے
عجب اجاڑ جزیروں کی سمت آ گیا ہوں
مجھے لگا تھا کنارے ہیں، جب دکھائی دیئے
عمیر نجمی

Comments