سید المرسلینؐ میں کہیں بھی نہیں

سید المرسلینؐ
میں کہیں بھی نہیں
نیک نامی سے تہمت چھلکنے لگی
صرف رسوائیاں میرے اطراف ہیں
میرے چاروں طرف بھیڑ ہی بھیڑ ہے
پھر بھی تنہائیاں میرے اطراف ہیں
جسم جن کا نہیں روح جن میں نہیں
کیسی پرچھائیاں میرے اطراف ہیں
محفلوں کے تسلسل میں زندہ ہوں میں
اور ویرانیاں میرے اطراف ہیں
کوئی مشکل نہیں اور مشکل یہ ہے
سخت آسانیاں میرے اطراف ہیں
میری ترتیب و تقویم کے لاحقے
سارے تبدیل ہوتے چلے جا رہے ہیں
بتاؤں کیسے
میرے پیروں میں سورج ہے، سر پر زمیں

سید المرسلینؐ
میں کہیں بھی نہیں
زندگی بابل و نینوا کی کہانی ہوئی
میرے بغداد و بصرہ کی تہذیب سب اہل علم و ہنر کی نشانی ہوئی
ایک دھندلی سی تصویر تھی ذہن میں میرے اجداد کی
اور وہ تصویر بھی اب پرانی ہوئی
گم ہوئے میرے ام القصر
آنے والے زمانوں کی تبدیلیوں پر نہیں ہے کسی کی نظر
وقت کی قید میں ہے ابھی میری تاریخ کا نوحہ گر
دور صحرا میں اڑتی ہوئی ریت کے دائروں میں سمٹتی ہوئی داستانیں
جو ہر عمر کے خوں سے لکھی گئیں
اک نئی کربلا کے دوراہے پہ بکھری پڑی ہیں
کہیں ریگِ عبرت کے ذروں میں لپٹی ہوئی سازشوں کا تماشہ
کہیں اپنے شانوں پہ رکھے ہوئے اپنی ہی آرزوؤں کا لاشہ
کہیں رقص کرتی ہوئی وحشتیں بے تحاشہ
کہیں قتل ہوتی ہوئی سوچ
بکتے ہوئے خواب
جلتے ہوئے شہر، گلیاں، محلے
محلوں میں پھیلا ہوا بے بسی کا دھواں
اور دھوئیں کی سیاہی میں چھپتا ہوا آسماں
آسماں سے ادھر رقص سیارگاں
آفتاب اور مہتاب کی کہکشاں
کہکشاؤں کی گردش میں لپٹا ہوا میرا علم الیقیں

سید المرسلینؐ
میں کہیں بھی نہیں

سلیم کوثر

Comments