بحر بھی سفر میں ہے اور کنارہ بھی

بحر بھی سفر میں ہے اور کنارہ بھی
چل رہا ہے آسماں اور ستارہ بھی
زیست کرنے کے لیے روز مرتے ہیں
بے بسی مقدر ہے یاں ہمارا بھی
اس کی جستجو میں ہم خود سے بھی گئے
ہاتھ سے نکل گیا یہ اک سہارا بھی 



عیش گاہ دنیا سے کچھ نہیں لیا
اور سیاہ کر لیا ہے گوشوارہ بھی
پھول خود حسیں بھی ہے،دلربا بھی ہے
اور اس حسیں کا ہے استعارہ بھی
اس کو دیکھنا بھی ہم چاہتے نہیں
اور اس کا کر رہے ہیں ہم نظارہ بھی
ضیا الحسن

Comments