داستان لب و رخسار سے آگے نہ بڑھو

داستانِ لب و رخسار سے آگے نہ بڑھو

حکم ہے کوچۂ دلدار سے آگے نہ بڑھو

 شیوۂ نرغِ گرفتار سے آگے نہ بڑھو

دیکھو دیکھو لبِ اظہار سے آگے نہ بڑھو

جذبۂ لذتِ آزار سے آگے نہ بڑھو

رہروو! وادئ پُر خار سے آگے نہ بڑھو

دل کے ویرانے میں گھومے تو بھٹک جاؤ گے

رونقِ کوچہ و بازار سے آگے نہ بڑھو

یہ بھی کیا کم ہے کہ شکوے کی اجازت دے دی

شکوۂ حسنِ فسوں کار سے آگے نہ بڑھو

رہ نوردانِ وفا کا یہی اسلوب رہا

وارداتِ دلِ بیمار سے آگے نہ بڑھو

راہ میں چند مقاماتِ ادب آتے ہیں

ساتھیو! سایۂ دیوار سے آگے نہ بڑھو

خامشی گونج بھی، جھنکار بھی، آواز بھی ہے

بے خودی میں لبِ گفتار سے آگے نہ بڑھو

ادا جعفری

Comments