خرید کر جو پرندے اڑائے جاتے ہیں‌

خرید کر جو پرندے اڑائے جاتے ہیں‌

ہمارے شہر میں کثرت سے پائے جاتے ہیں

میں دیکھ آیا ہوں اِک ایسا کارخانہ ‘ جہاں

چراغ توڑ کے سورج بنائے جاتے ہیں‌


یہ کون لوگ ہیں ‘ پہلے کبھی نہيں دیکھے

جو کھینچ تان کے منظر پہ لائے جاتے ہیں

اے آسماں تجھے اُن کی خبر بھی ہے کہ نہيں

جو دن دیہاڑے زمیں سے اٹھائے جاتے ہیں

یہ ساری فِلم ہی اچّھی طرح بنی ہوئی ہے

مگر جو سِِــین اچانک دکھائے جاتے ہیں

میں اِس لیے بھی سمُندر سے خوف کھاتا ہوں

مجھے نصاب میں دریا پڑھائے جاتے ہیں

کہیں مِلیں گے تو پھر جان جاؤ گے’ عامی

ہم ایسے ہیں نہيں ‘ جیسے بتائے جاتے ہیں

عمران عامی

Comments