زخموں کے نئے پھول کھلانے کے لئے آ 

زخموں کے نئے پھول کِھلانے کے لئے آ 
پھر موسمِ گُل یاد دلانے کے لئے آ

مستی لئے آنکھوں میں بکھیرے ہوئے زُلفیں 
آ، پھر مجھے دِیوانہ بنانے کے لئے آ

اب لُطف اِسی میں ہے، مزا ہے تو اِسی میں! 
آ اے مِرے محبُوب! ستانے کے لئے آ

آ، رکھ دَہَنِ زخم پہ، پِھر اُنگلیاں اپنی 
دِل بانسری تیری ہے، بجانے کے لئے آ

ہاں کچھ بھی تو دیرینہ محبت کا بھرم رکھ 
دِل سے نہ آ، دُنیا کو دِکھانے کے لئے آ

مانا کہ مِرے گھر سے عداوت ہی تجھے ہے
رہنے کو نہ آ ، آگ لگانے کے لئے آ

پیارے! تِری صُورت سے بھی اچّھی ہے، جو تصوِیر
میں نے، تجھے، رکھّی ہے دِکھانے کے لئے، آ

آشُفتہ کہے ہے، کوئی دِیوانہ کہے ہے 
میں کون ہُوں، دُنیا کو بتانے کے لئے آ

کُچھ روز سے ،ہم شہر میں رُسوا نہ ہُوئے ہیں 
آ، پھر کوئی اِلزام لگانے کے لئے آ

اب کے جو وہ آ جائے تو عاجزؔ ، اُسے لے کر
محفِل میں غزل اپنی سُنانے کے لئے آ

کلیم عاجز 

Comments