جب کیا میں نے قصد نعت حضور

جب کیا میں نے قصدِ نعتِ حضور
ہوئے یکجا شعور و تحتِ شعور

روحِ ممدوح دستگیر ہوئی
شاملِ جاں تھا لطفِ ربِّ غفور

ورنہ میں اور محامدِ احمد
جس کی خاطر ہوا یہ نور و ظہور

خود خدا جس کا ہے ستائش گر
رحمتِ عالمیں ہے جو مذکور

وہ کہ ہے مظہرِ دعائے خلیلؑ
ذکر جس کا ہے جا بجا مسطور

دی بشارت مسیحؑ نے جس کی
لے کے آیا جو آخری منشور

ذات جس کی مبشّر و مُنذِر
جس کا دیں ہے مظفّر و منصور

وہ کہ ہے عادل و عزیز و امیں
وہ کہ ہے شاہد و شفیع و شکور

مقتدی جس کے ہیں نبی سارے
کلمہ گو جس کے ہیں وحش و طیور

نطق جس کا حیات کا دستور
زندگی جس کی ہے منارۂ نور

حُسن سے جس کے کائنات حسیں
خُلق سے جس کے خَلق ہے مسحور

جس کے فقرِ غیور کے آگے
منفعل فرِّ قیصرؔ و فغفورؔ

ڈھال جس کی محافظِ اخیار
تیغ جس کی عدوئے اہلِ شرور

جس کے قدموں میں زندگی کی بہار
جس کے دم سے ہے رنگ و بُو کا وفور

وہ کہ ہے سوز و سازِ نبضِ حیات
وہ کہ ہے غایتِ سنین و شہود

وہ کہ ہے دولتِ دلِ مفلس
وہ کہ ہے زورِ بازوئے مزدور

اُس کی خدمت میں کچھ برنگِ غزل
بہ امیدِ قبول و قرب و حضور

حفیظ تائب

Comments