انجم سلیمی ، نظم

میں تمہارے لیے لے کے آیا ہوں
دفتر سے چرایا ہوا نصف دن
دوستوں سے بچائی ہوئی ایک شام
بچوں سے ٹھگے ہوئے وعدے
بیوی کے حصے سے کچھ نرم گرم لمس
کچھ سوتے جاگتے بوسے
اور خوابوں سے ٹانکی ہوئی یہ رات!
میں تمہارے لیے لے کے آیا ہوں
سرسبز موسموں کے اجلے بیج
قدیم زمانوں سے رستی ہوئی خنک ہوا
آبی کناروں سے سرشار مٹی کی روئیدگی
اور رگوں میں کِھلتے ہوئے سفید گلابوں کا شہد
میں تمہارے لیے لے کے آیا ہوں
بے ترتیب سانسوں کی مالا
دہکتے ہاتھوں کی سرسراہٹ
آنکھوں میں دور تک گونجتی ہوئی خاموشی
اور وجدان میں
اک بھولی ہوئی مسکراہٹ!
تم نے میرے لیے رکھی ہے
بے کیف تنہائی کی آغوش
ٹھنڈے لمس سے آویزاں مسکراہٹ
پسینے میں بھیگے بستر کے تیور
کھردرے لہجے کی کڑواہٹ
عریاں خواہشوں کی خراشیں
گزری رات کی باسی مہک
اور طلوع ہوتے پچھتاوے کی ایک صبح!
انجم سلیمی

Comments