Posts

Showing posts from December, 2021

ڈر جاندا ہاں

کنج زنداں میں پڑا سوچتا ہوں

یہ اور بات کہ سورج میں روشنی کم ہے

تجھ سے بچھڑ کے ہم بھی مقدر کے ہو گئے

دلیلیں منطقیں اور فلسفے بے کار ہوتے ہیں

زلف پیچاں کے خم سنوارے ہیں

ہنس کے بولا کرو بلایا کرو

کتنا خاموش ہوں میں اندر سے

سکوں بھی خواب ہوا نیند بھی ہے کم کم پھر

چھت پہ آجاؤ مرا شعر مکمل کر دو

وہ قحط عشق کہ دشوار ہو گیا جینا

اندھا کباڑی

یہ چشم و لب ہیں یا کوئی آیت لکھی ہوئی

اک کیفیت پیاس کی دائم ہمیں قبول

حسن کو عشق کی ضرورت ہے

غم حیات کی لذت بدلتی رہتی ہے

مجھ میں کتنے راز ہیں بتاؤں کیا

کالی راتوں کو بھی رنگین کہا ہے میں نے

کبھی دماغ کبھی دل کبھی نظر میں رہو

لگے تھے لوگ اسے ہوشیار کرنے میں

جتنی راز داری سے رابطے بڑھاتی ہے

عجیب سے خمار میں پڑا رہا مَرا رہا

میں جب اس کےلئے بیتاب ہوا کرتا تھا

ورنہ کھا جاتے مسائل مجھے خیر و شر کے

ہوش رہتا نہیں جوانی میں

شاپنگ