حسن کو عشق کی ضرورت ہے

حُسن کو عشق کی ضرورت ہے
حُسن کی زندگی محبت ہے
کیوں اُٹھے جا رہے ہو محفل سے
کیا قیامت ہے، کیا قیامت ہے
آپ برہم نہ ہوں تو میں کہہ دوں
آپ سے کچھ مجھے شکایت ہے
پوچھ لو مجھ سے کائنات کا حال
دل کے ہاتھوں میں نبضِ فطرت ہے
جاگ اُٹّھیں مری تمنائیں
مسکرانا ترا قیامت ہے
ظلم کو جو کہ زندگی بخشے
ایسی فریاد سے بغاوت ہے
میں جو چاہوں جہاں پہ چھا جاؤں
جذبہِ دل مرا سلامت ہے
سن کے بولے وہ میرا حال، شکیبؔ
کچھ فسانہ ہے، کچھ حقیقت ہے
شکیب جلالی

Comments