مجھ میں کتنے راز ہیں بتاؤں کیا

مجھ میں کتنے راز ہیں بتاؤں کیا
بند اک مدت سے ہوں کھل جاؤں کیا
عاجزی، منت، خوشامد، التجا
اور میں کیا کروں، مر جاؤں کیا
کل یہاں میں تھا، جہاں تم آج ہو
میں تمہاری ہی طرح اتراؤں کیا
تیرے جلسے میں تیرا پرچم لیے
سینکڑوں لاشیں بھی ہیں گنواؤں کیا
اک پتھر ہے وہ میری راہ کا
گر نہ ٹھکراؤں تو ٹھوکر کھاؤں کیا
پھر جگایا تو نے سوئے شیر کو
پھر وہی لہجہ درازی آؤں کیا

راحت اندوری

Comments