میں جب اس کےلئے بیتاب ہوا کرتا تھا

میں جب اس کےلئے بیتاب ہوا کرتا تھا
 ماہی بھی ماہی ء بے آب ہوا کرتا تھا
پھول بکھرے ہوئے دیکھے ہیں تو یاد آیا ہے
 میرا بھی حلقہ ء احباب ہوا کرتا تھا


اب تو خیر آنکھ کی بنتی ہی نہیں نیندوں سے
 ورنہ ہر خواب مرا خواب ہوا کرتا تھا
پانی گاگر میں بھی قاتل نظر آتا تھا ہمیں
 جن دنوں خطرہ ء سیلاب ہوا کرتا تھا
پھول اس ڈر سے بھی لے لیتی تھی لڑکی کیونکہ
 دوسرے ہاتھ میں تیزاب ہوا کرتا تھا
سلطنت گھن کی طرح چاٹ گئے چرب زبان
 شاہوں کو چسکہ ء القاب ہوا کرتا تھا
راکب مختار

Comments