Posts

Showing posts from January, 2020

کیا جانے کس کی پیاس بجھانے کدھر گئیں

نقاب اٹھائے تو دشمن سلام کر دے گا

بے تاب آفتاب ہے تجھ مکھ کی تاب کا

اپنے گھر کی کھڑکی سے میں آسمان کو دیکھوں گا

پیش جاناں سخن آشفتہ سری ہے خاموش

عہد و پیمان بھولتا ہی نہیں

تو نے تو اے رفیق جاں اور ہی گل کھلا دئیے

اتفاق اپنی جگہ خوش قسمتی اپنی جگہ

سب کچھ نہ کہیں سوگ منانے میں چلا جائے

بستی بھی سمندر بھی بیاباں بھی میرا ہے

سینے میں سلگتے ہوئے جذبات کا جنگل

دن کی بے درد تھکن چہرے پہ لے کر مت جا

وقت جدائی آ جو گیا یار دوستو

کوئی غل ہوا تھا نہ شور خزاں

سرخ چمن زنجیر کیے ہیں سبز سمندر لایا ہوں

پھر دھندلکا سا ہوا رات کے آثار گئے

ہم کو دوانہ جان کے کیا کیا ظلم نہ ڈھایا لوگوں نے

ایک فقیر چلا جاتا ہے پکی سڑک پر گاؤں کی

اس کو اپنے پاس بلایا جا سکتا ہے

نظم سمپورن سنگھ گلزار

محبتوں کے شجر پر ثمر اگاتے ہوئے

وہ سارے خطا کار سر دار کھڑے ہیں

دامن یوسف

تیری آواز میں تیری ہی ہنسی ہنستی ہے

جنوں کی راکھ سے منزل میں رنگ کیا آئے

کس نے کوئی سچ لکھاہے یہ فقط الزام ہے

موسیٰ اگر جو دیکھے تجھ نور کا تماشا

اب اس کے بعد ترا اور کیا ارادہ ہے

سارا باغ الجھ جاتا ہے ایسی بے ترتیبی سے

تیرا کیا بنے گا اے دل

کل شب ہوئی کسی سے ملاقات رقص میں

سانحہ کتنا بڑا ہے سانحے کو کیا پتہ

یہ کام دوسروں سے نہ لے یار تو ہی کر

تیرے پہلو میں ترے دل کے قریں رہنا ہے

جب سے اپنے گھر کے بام و در سے نکلے ہیں

غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں 

صرف میرے لئے نہیں رہنا

چاندنی جھیل نہ شبنم نہ کنول میں ہو گا

میں اپنی ذات سے انکار کرنا چاہتا ہوں

تلاشنا تھا مجھے تیسرے کنارے کو

عالم ہی اور تھا جو شناسائیوں میں تھا

ماں نے پھر بھی قبر پہ اس کی راج دلارا لکھا تھا

گرفتہ دل عندلیب گھائل گلاب دیکھے

خموشی کی زبان میں گفتگو کرنی بھی آتی ہے