سینے میں سلگتے ہوئے جذبات کا جنگل

سینے میں سلگتے ہوئے جذبات کا جنگل
کس طرح کٹے تاروں بھری رات کا جنگل

ہاں دست شناسی پہ بڑا ناز تھا اس کو
دیکھا نہ گیا اس سے مرے ہات کا جنگل

امید کا اک پیڑ اگائے نہیں اگتا
خود رو ہے مگر ذہن میں شبہات کا جنگل

دے طاقت پرواز کہ اوپر سے گزر جاؤں
کیوں راہ میں حائل ہے مری ذات کا جنگل

خوابیدہ ہیں اس میں کئی عیار درندے
بہتر ہے کہ جل جائے یہ جذبات کا جنگل

کچھ اور مسائل مری جانب ہوئے مائل
کچھ اور ہرا ہو گیا حالات کا جنگل

تصویر غزل میں سے جھلکتا ہوا اسلمؔ
یہ شہر سخن ہے کہ خرافات کا جنگل

اسلم کولسری

Comments