دن سے ہو سکتا ہے کچھ رات سے ہو سکتا ہے

دن سے ہو سکتا ہے کچھ رات سے ہو سکتا ہے
مجھ کو شکوہ بھی تو حالات سے ہو سکتا ہے
آؤ ہم جھانکیں ذرا اپنے گریبان کے بیچ
معاملہ ٹھیک اسی بات سے ہو سکتا ہے
بیٹھ، چائے کی پیالی پہ ذرا بات کریں
فاصلہ کم یہ مساوات سے ہو سکتا ہے
تُو نے گنوائے میری ذات کے سو لاکھ عیوب
مجھ کو بھی رنج تیری ذات سے ہو سکتا ہے
یہ جو بگڑا ہوا اس شہر کا نقشہ ہے نا
اور ابتر بھی تضادات سے ہو سکتا ہے
تو جو ہر بات میں لے آتا ہے اسلام کو بیچ
ہاں تیرا ناتا مفادات سے ہو سکتا ہے
تیرا ہمسایہ اسی تاک میں بیٹھا ہوا ہے
فائدہ اس کو فسادات سے ہو سکتا ہے
دم نہیں ٹیڑھی تیرا سارا ہے کتا ٹیڑھا
یہ فقط سیدھا کرامات سے ہو سکتا ہے

رضا نقوی

Comments