موسیٰ اگر جو دیکھے تجھ نور کا تماشا

موسیٰ اگر جو دیکھے تجھ نور کا تماشا
اس کوں پہاڑ ہووے پھر طور کا تماشا
اے رشک باغ جنت تجھ پر نظر کیے سوں
رضواں کو ہووے دوزخ پھر حور کا تماشا
روز سیاہ اس کے مومو سوں جلوہ گر ہے
تجھ زلف میں جو دیکھا دیجور کا تماشا
کثرت کے پھول بَن میں جاتے نئیں ہیں عارف
بس ہے موحّداں کو منصور کا تماشا
ہے جس سوں یادگاری وو جلوہ گر ہے دایم
تو چیں میں دیکھ جاکر فغفور کا تماشا
وہ سر بلند عالم از بس ہے مجھ نظر میں
جیوں آسماں عیاں ہے مجھ دور کا تماشا
تجھ عشق میں ولیؔ کے آنجھو اُمنڈ چلے ہیں
اے بحرِ حسن آ دیکھ اِس پو‘ر کا تماشا
ولی دکنی

Comments