راز کب راز رہا ہے کسی رعنائی کا

راز کب راز رہا ہے کسی رعنائی کا
حال میں جان چُکا آنکھ کی تنہائی کا
کیسے وہ درد کی شدت کو سمجھ سکتا ہے؟
جس کو اندازہ نہ ہو زخم کی گہرائی کا
غیب سے حضرتِ غالب کی صدا آتی ہے
شاعری کام نہیں قافیہ پیمائی کا
عاجزی ہم نے بنایا ہے وطیرہ اپنا
بسی یہی کام کیا زیست میں دانائی کا
رات ہو وصل کی بارش میں نہائی ہوئی رات
ہم سنائیں تمہیں قصہ شبِ تنہائی کا
یار سب جانے لگے اپنے ٹھکانوں کو سعید
جب مزہ گھٹنے لگا لذّتِ یکجائی کا
مبشر سعید

Comments