مصیبت جس سے زائل ہو وہی سامان کر دے گا

مصیبت جس سے زائل ہو وہی سامان کر دے گا
نہ گھبرانا، خدا سب مشکلیں آسان کر دے گا
خوشی سے مشکلوں کا سامنا کر، منہ نہ پھیر اے دل
تِرے عقدوں کا حل، تِرا یہی اوسان کر دے گا

بشر پر منحصر کیا، تذکرہ اس کا تو ہے ناحق
یہ عشقِ ذوفتوں، حیواں کو بھی انسان کر دے گا
تِری روپوشیاں اے حسن! کب بے کار جائیں گی
یہی پردہ عیاں عالم میں تیری شان کر دے گا
دِلا گھبرا رہا ہے کیوں، غنیمت ہے کہ عشق آیا
تِرے اے میزباں، سب کام یہ مہمان کر دے گا
کوئی گر سلطنت بھی دے تجھے ہرگز نہ لے اے دل
سبک ہر طرح سے تجھ کو غیر کا احسان کر دے گا
یقیں کر لے کہ خود وہ جلوہ گر پردے میں ہیں ورنہ
یہ ہی ظالم گماں تیرا ، تجھے حیران کر دے گا

شاد عظیم آبادی

Comments