آنکھوں کے بند باب لیے بھاگتے رہے

آنکھوں کے بند باب لیے بھاگتے رہے
بڑھتے ہوئے عتاب لیے بھاگتے رہے
سونے سے جاگنے کا تعلق نہ تھا کوئی
سڑکوں پہ اپنے خواب لیے بھاگتے رہے
تھے سیکڑوں سوال جوابوں کی بھیڑ میں
جینے کا ہم عذاب لیے بھاگتے رہے
فرصت نہیں تھی اتنی کہ پیروں سے باندھتے
ہم ہاتھ میں رکاب لیے بھاگتے رہے
تیزی سے بیتتے ہوئے لمحوں کے ساتھ ساتھ
ہم اپنا اضطراب لیے بھاگتے رہے
آشفتہ چنگیزی

Comments