تلاشنا تھا مجھے تیسرے کنارے کو

تلاشنا تھا مجھے تیسرے کنارے کو
سو میں نے ساتھ لیا شام کے ستارے کو



 تِرے بہاؤ میں ہوتا رہا کٹاؤ مِرا
کہ روک پایا نہ تیری انا کے دھارے کو
اتر کے آ تو گیا ہوں میں سیڑھیاں، لیکن
پلٹ کے دیکھ رہا ہوں تِرے چوبارے کو
میں تیری آنکھ کا صدقہ اتار آیا ہوں
کہ تُو بھی دیکھ لے ڈوبتے نظارے کو
جو رتجگے مِری آنکھ سے لے گئے سپنے
وہ ڈھونڈتے ہیں تِری نیند کے دوارے کو
اسی لیے تو دُکاں بند کی ہے خوابوں کی
کہ دکھ بھی گھیر چکے ہیں مِرے خسارے کو
وہ کہہ رہی تھی حسنؔ! ہجر ایک نعمت ہے
میں سادہ دل نہیں سمجھا تھا اس اشارے کو

حسن عباس رضا

Comments