Posts

Showing posts from December, 2019

ایتھے لوک آزما کے وکھدے نیں

لاکھ پردے سے رخ انور عیاں ہو جائے گا

گرفتاری میں فرمان خط تقدیر ہے پیدا

سحر گہ باغ میں وہ حیرت گلزار ہو پیدا

بس کہ ہے میخانہ ویراں جوں بیابان خراب

بدن کے طاقچے میں گرد ہے گزرے زمانوں کی

بھلا خوشیاں کہیں کوں چک پیندن

عمر گزری جس کا رستہ دیکھتے

دل ربا آیا نظر میں آج میری خوش ادا

مکین خوش تھے کہ جب بند تھے مکانوں میں

قربتیں ہوتے ہوئے بھی فاصلوں میں قید ہیں

چمن اپنا لٹا کر بلبل ناشاد نکلی ہے

میں جہاں تھا وہیں رہ گیا معذرت

ٹھکانے یوں تو ہزاروں ترے جہان میں تھے

گہرے سروں میں عرض نوائے حیات کر

آویزشیں بڑھتی ہی گئیں قلب و نظر میں

خواب کو دن کی شکستوں کا مداوا نہ سمجھ

ہم پھر سے فریب کھائیں گے کیا

یہ اور بات کہ مٹی بہت پرانی ہے

اٹھنے لگا دھواں دل غم انتساب سے

تیری مرضی کے خد و خال میں ڈھلتا ہوا میں

سو چاند بھی چمکیں گے تو کیا بات بنے گی

ہوائیں تیز ہیں بجھتا دیا ہے

ہماری طرح محبت کا فلسفہ سمجھے

عین ممکن ہے کوئی آنکھ بھی بیدار نہ ہو

کسی پہ کیسے کھلے راکھ ہے کہ سونا ہے

لبوں پہ قفل تھے چپ کے ڈرے ہوئے تھے تمام

ساری شرارت آپ کی میری نظر میں ہے

ڈوب جائیں گے تو پانی سے نکل آئیں گے

بارگاہ پاک میں پہنچے ثنا کرتے ہوئے

تجھے کیسے علم نہ ہو سکا، بڑی دُور تک یہ خبر گئی

جسے میں نے صبح سمجھ لیا کہیں یہ بھی شام الم نہ ہو

دنوں کی بات تو پھر کوئی بات بھی نہ ہوئی

باد رحمت سنک سنک جائے

مجھے بھی خاک تجھے بھی ہوا ہونا تھا

محبت سے جب آشنا ہو گئے ہم

عذاب زیست کی سامانیاں نہیں جاتیں

مسجد میں بیٹھ کر بھی نماز بتاں پڑھی

دشت غربت میں ہیں اور رنج سفر کھینچتے ہیں

وہ جسے یاد دسمبر میں ہی آئی میری

دل وحشی تجھے اک بار پھر زنجیر کرنا ہے

عشق میں خود سے محبت نہیں کی جاسکتی

مت غصے کے شعلے سوں جلتے کوں جلاتی جا

جو کچھ کہیں تو دریدہ دہن کہا جائے

ستم کی رات کو جب دن بنانا پڑتا ہے