نہ ہو گر رام مجھ سے وہ بت خود کام کیا ہو گا

نہ ہو گر رام مجھ سے وہ بت خود کام کیا ہو گا
خدا جانے مِرے اس عشق کا انجام کیا ہو گا
ہمارے نامِ بد سے ننگ بدنامی کو آتا ہے
زیادہ اس سے کوئی عشق میں بدنام کیا ہو گا
تِرے مئے خانے کا ہے فیض ہر دم عام اے ساقی
اگر پی جاویں ہم بھی یاں سے دُردِ جام کیا ہو گا
گورا میں نے اپنے پر کیا ہے تلخ و شیریں کو
عوض بوسے کے گر دے تُو ہمیں دُشنام کیا ہو گا
چلا ہے قاصد اس کے پاس سے، یاں جی دھڑکتا ہے
لکھا اس نے کیا نامے میں اور پیغام کیا ہو گا
میں حسرتؔ مجتہد ہوں بت پرستی کی طریقت کا
نہ پوچھو مجھ کو کیسا کفر ہے، اسلام کیا ہو گا

حسرت عظیم آبادی

Comments