ہم پھر سے فریب کھائیں گے کیا

ہم پھر سے فریب کھائیں گے کیا
بہروپئے لوٹ آئیں گے کیا
تلوار کی فصل اُگ رہی ہے
گندم کی جگہ پکائیں گے کیا
کاندھا ہی نہیں بدلنے دیتے
ہم گور میں ساتھ جائیں گے کیا
بھڑکا تو رہے ہیں شیخ صاحب
اس آگ میں گھر جلائیں گے کیا
جو ٹھنڈے لوہے کو کُوٹتے ہیں
تھک کر نہیں بیٹھ جائیں گے کیا
اب رات بھی سرد ہو رہی ہے
ہم اوڑھیں گے کیا، بچھائیں گے کیا

شاہنواز زیدی

Comments