ہے رشکِ وصل سے غم دل دار ہی بھلا

ہے رشکِ وصل سے غمِ دل دار ہی بھلا
راحت سے ایسی ہم کو دو دل آزار ہی بھلا
دنیا میں یارو! یارِ وفادار ہی نہیں
اور جو نہ ہو تو رہنا ہے بے یار ہی بھلا
معشوق کا نظارہ میسر ہو یا نہ ہو
عاشق ہمیشہ طالبِ دیدار ہی بھلا
زاری پہ میری رحم بھی کر، آ خدا کو مان
کافر رہے گا ہم سے تُو بیزار ہی بھلا
حسرتؔ برا کیا میں اٹھایا دل اس سے کیوں
دلدار گر نہ تھا، دل آزار ہی بھلا

حسرت عظیم آبادی

Comments