ذرا سی دیر کو منظر سہانے لگتے ہیں

ذرا سی دیر کو منظر سہانے لگتے ہیں
پھر اس کے بعد یہی قید خانے لگتے ہیں



 میں سوچتا ہوں کہ تُو دربدر نہ ہو، ورنہ
تجھے بھلانے میں کوئی زمانے لگتے ہیں
کبھی جو حد سے بڑھے دل میں تیری یاد کا حبس
کھلی فضا میں تجھے گنگنانے لگتے ہیں
جو تُو نہیں ہے تو تجھ سے کئے ہوئے وعدے
ہم اپنے آپ سے خود ہی نبھانے لگتے ہیں
عجیب کھیل ہے جلتے ہیں اپنی آگ میں ہم
پھر اپنی راکھ بھی خود ہی اڑانے لگتے ہیں
یہ آنے والے زمانے مِرے سہی، لیکن
گزشتہ عمر کے سائے ڈرانے لگتے ہیں
نگار خانۂ ہستی میں کیسا پائے ثبات
کہیں کہیں تو قدم ڈگمگانے لگتے ہیں

سلیم کوثر

Comments