نہیں کہ مشت خاک ہوں نہیں کہ خاک داں ہوں میں

نہیں کہ مشتِ خاک ہوں، نہیں کہ خاک داں ہوں میں
اِنھی کی ایک شکل ہوں، اِنھی کے درمیاں ہوں میں

بہت سُنا گیا مجھے، بہت سُنا دیا گیا
ہزار سال بعد بھی، ہزار داستاں ہوں میں

مرے لیے جو ہوش ہے، فریبِ چشم و گوش ہے
یہ کون مے فروش ہے، یہ کس کا رازداں ہوں میں

لِکھا گیا، ہُوا نہیں، پڑھا گیا، کھُلا نہیں
زباں کا عیب جانیے کہ حرفِ رائیگاں ہوں میں

یہ گھر وہ گھر نہیں میاں! غبارِ ماہ و سال ہے
مری شناخت کچھ نہیں، بیادِرفتگاں ہوں میں

بھلا ہُوا کہ قافلے، مری تلاش میں نہ تھے
پکارنا نہیں پڑا کہ صاحبو! یہاں ہوں میں

کبھی نہ کچھ سُنا سکا، کہیں نظر نہ آسکا
کوئی نہیں بتا سکا، نہیں ہوں یا نہاں ہوں میں

ذوالفقار عادل

Comments