لبوں پہ قفل تھے چپ کے ڈرے ہوئے تھے تمام

لبوں پہ قفل تھے چپ کے ، ڈرے ہوئے تھے تمام
جو زندہ لوگ تھے وہ بھی مرے ہوئے تھے تمام
ہر ایک شاخ سے آتی تھی باس گریے کی
کہ پیڑ آنکھ کے نم پہ ہرے ہوئے تھے تمام
ہمارے ہاتھ کی لرزش سے خاک خاک ہوئے
جو کوزے چاک پہ ہم نے دھرے ہوئے تھے تمام
عجیب ضعف تھا ، اب کے بصارتوں میں رچا
وہی جو لوگ تھے کھوٹے ، کھرے ہوئے تھے تمام
پڑا ہے جسم کے زندان میں کوئی محبوس
کہ جتنے نوحے تھے دکھ سے بھرے ہوئے تھے تمام
گواہ ڈھونڈتی کیسے کہ تیری بستی میں
مرے خلاف ہی کل مشورے ہوئے تھے تمام

Comments