آنکھوں کے سامنے کوئی منظر نیا نہ تھا

آنکھوں کے سامنے کوئی منظر نیا نہ تھا
بس وہ ذرا سا فاصلہ باقی رہا نہ تھا
اب اس سفر کا سلسلہ شاید ہی ختم ہو
سب اپنی اپنی راہ لیں، ہم نے کہا نہ تھا
دروازے آج بند سمجھیے سلوک کے
یہ چلنے والا دور تلک سلسلہ نہ تھا
اونچی اڑان کے لیے پر تولتے تھے ہم
اونچائیوں پہ سانس گھٹے گی پتہ نہ تھا
کوشش ہزار کرتی رہیں تیز آندھیاں
لیکن وہ ایک پتہ ابھی تک ہلا نہ تھا
سب ہی شکار گاہ میں تھے خیمہ زن مگر
کوئی شکار کرنے کو اب تک اٹھا نہ تھا
اچھا ہوا کہ گوشہ نشینی کی اختیار
آشفتہ اور اس کے سوا راستہ نہ تھا
آشفتہ چنگیزی

Comments