ایک ایک جھروکا خندہ بہ لب ایک ایک گلی کہرام

ایک ایک جھروکا خندہ بہ لب ایک ایک گلی کہرام
ایک ایک جھروکا خندہ بہ لب ایک ایک گلی کہرام



 ہم لب سے لگا کر جام ہوئے بدنام بڑے بدنام
رُت بدلی کہ صدیاں لوٹ آئیں اُف یاد کسی کی یاد
پھر سیلِ زماں میں تیر گیا ایک نام، کسی کا نام
دل ہے کہ اِک اجنبی حیراں، تم ہو کہ پرایا دیس
نظروں کی کہانی بن نہ سکے ہونٹوں پہ رُکے پیغام
اے تیرگیوں کی گھومتی رو کوئی تو رسیلی صبح
اے روشنیوں ‌کی ڈولتی لو، اِک شام، نشیلی شام
رہ رہ کے جیالے راہیوں کو دیتا ہے کون یہ آواز
کونین کی ہستی منڈیروں پر تم ہو کہ غمِ ایام
بے برگ شجر گردوں کی طرف پھیلائے ہمکتے ہات
پھولوں سے بھری ڈھلوان پہ سوکھے پات کریں بسرام
ہم فکر میں ہیں اس عالم کا دستور ہے کیا دستور
یہ کس کو خبر اس فکر کا ہے دستورِ دو عالم نام

مجید امجد

Comments