یاد بکھری ہے کہ سامان تمہارا مجھ میں

یاد بکھری ہے کہ سامان تمہارا مجھ میں
لگ رہا ہے کہ تم آؤ گے دوبارہ مجھ میں
تھے بھٹکتے ہوئے کچھ لوگ مرے اندر بھی
تُو نے کیوں کوئی پیمبر نہ اتارا مجھ میں
خود سے نکلے ہوئے اک عمر ہوئی ہے مجھ کو



 اور کوئی ڈھونڈتا پھرتا ہے سہارا مجھ میں
میں نئے پاؤں بناتا ہوں، تو کٹ جاتے ہیں
جب بھی ہوتا ہے مُسافت کا اشارہ مجھ میں
ایک جھٹکے سے اٹھا نیند کے پہلو سے میں
مدتوں بعد کوئی خواب پکارا مجھ میں
خُشک جنگل کی طرح جسم بھڑک اٹھتا ہے
اشک گرتا ہے کہ گرتا ہے شرارہ مجھ میں
کرچیاں دوڑتی پھرتی ہیں لہو میں شاہدؔ
ٹُوٹ بکھرا ہے محبت کا ستارہ مجھ میں

شاہد ذکی

Comments