کس کو سمجھائیں کہ حضرت سمجھو

کس کو سمجھائیں کہ حضرت! سمجھو
دل کو دنیا کی طرح مت سمجھو



تم مجھے کچھ بھی سمجھ سکتے ہو
کچھ نہیں ہوں تو غنیمت سمجھو

یہ جو دریا کی خموشی ہے اِسے
ڈوب جانے کی اجازت سمجھو

ایک دن خاک تو ہو جانا ہے
رائیگانی کو ریاضت سمجھو

میں نہ ہوتے ہوئے ہو سکتا ہوں
تم اگر میری ضرورت سمجھو

یہ جو آنکھوں میں نمی ہے عادلؔ
ڈوبنے والوں کی غفلت سمجھو
ذوالفقار عادل

Comments