ہم کو معلوم ہے اس بات پہ سر لگتا ہے

ہم کو معلوم ہے اس بات پہ سر لگتا ہے
کوئی زنجیر ہلاتا ہے تو ڈر لگتا ہے
کوئی خاموشی سے لپٹی ہوئی ویرانی میں
دل پہ بچھڑی ہوئی شاموں کا اثر لگتا ہے
میری آوارہ مزاجی کو بہت سہل نہ جان
ایک ہی راہ پہ عمروں کا سفر لگتا ہے
کیا کہوں خوئے جنوں پہلے قدم پر تیرے
جان لگتی ہے، ہنر لگتا ہے، گھر لگتا ہے
یوں اجازت کو بھی حد چاہیے صحنِ دل میں
پہلے دیوار بناتے ہیں تو در لگتا ہے
کتنا چپ چاپ ہے اجڑے ہوئے شہروں کی طرح
کوئی تنہائی کے موسم کا شجر لگتا ہے

فرحت عباس شاہ

Comments