Posts

Showing posts from November, 2018

سحر ہوگی تارے چلے جائیں گے

پاؤں بے دھیانی میں ایسا پڑ گیا

رات ڈھلنےکے بعد کیا ہوگا

گردش جام نہیں ، گردش ایام تو ہے

پھر وہی کہنے لگے تو مرے گھر آیا تھا

ایک مدت سے اسے ہم نے جدا رکھا ہے

رقیبوں کا مجھ سے گلا ہو رہا ہے

یہ حادثہ ہوا ہے محبت کے دیس میں

پیش جاناں کو سیلری کی تھی

عشق کرو تو یہ بھی سوچو عرض سوال سے پہلے

بے جا نوازشات کا بار گراں نہیں

میں تو سودا لیے پھرا سر میں

جنگل کی ہوا بھی سرپھری ہے

اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے

اداسیوں کی کوئی شہریت نہیں ہوتی

نہ جسم ساتھ ہمارے نہ جاں ہماری طرف

کہیں حیات اسی فاصلے کا نام نہ ہو

پھر وہ دریا ہے کناروں سے چھلکنے والا

وہ دن کہ زمیں پر کبھی پاؤں نہ پڑے تھے

حشر پر وعدہء دیدار ہے کس کا تیرا

میرے سوکھے شجر کے کام  آیا

جسے خبر ہی نہیں بندہ پروری کیا ہے

ہماری خامشی ہوتی ہے دیکھنے والی

دنیا نے ہم پہ جب کوئی الزام رکھ دیا

دل بڑھ گیا ہے پاؤں میں زنجیر دیکھ کر

میرے سینے میں محمد کا دیا رکھا ہے

جانے کب تک رہے یہی ترتیب

جس میں سودا نہیں وہ سر ہی نہیں

حبس تنہائی نہ دے حبس میں کیا رکھا ہے

پسینہ ماتھے سے بہہ رہا ہے نہ کوئی سلوٹ لباس پر ہے

کلام کرتی نہیں میری چشم تر جیسے

کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا

اتنا تو زندگی میں کسی کے خلل پڑے

ڈھب دیکھے تو ہم نے جانا، دل میں دُھن بھی سمائی ہے​

لذت شام شب ہجر خدا داد نہیں

نوشی گیلانی نظم