آتش شوق کو کب دل سے جدا رکھا ہے

داغ دہلوی
آتش شوق کو کب دل سے جدا رکھا ہے
اس لگی کو کلیجے سے لگا رکھا ہے
دیکھ لینے کو تری سانس لگا رکھا ہے
ورنہ بیمار غم ِہجر میں کیا رکھا ہے
نا امید ان وفا کا یونہیں دل رکھتے ہیں
آپ نے خاک میں جس طرح ملا رکھا ہے
کھائی ہے وعدۂ فردا پہ قسم کیا جھٹ پٹ
آج اس حرفِ تسلی نے لٹا رکھا ہے
اس قدر تو ہے ترا پردہ نشیں پاس حجاب
کہ ترےدرد کو بھی دل میں چھپا رکھا ہے
تھے مکدر تو کدورت نے رکھا تھا برباد
صاف ہو اب تو صفائی نے مٹا رکھا ہے.

Comments