بیاباں دور تک میں نے سجایا تھا

بیاباں دور تک میں نے سجایا تھا
مگر وہ شہر کے رستے سے آیا تھا
دیے کی آرزو کو جب بجھایا تھا
پھر اس کے بعد آہٹ تھی نہ سایہ تھا
اسے جب دیکھنے کے بعد دیکھا تو
وہ خود بھی دل ہی دل میں مسکرایا تھا
دل و دیوار تھے اک نام کی زد پر
کہیں لکھا کہیں میں نے مٹایا تھا
ہزاروں اس میں رہنے کے لیے آئے
مکاں میں نے تصور میں بنایا تھا
جہاں نے مجھ کو پہلے ہی خبر کردی
کبوتر دیر سے پیغام لایا تھا
چلے ملاح کشتی گیت امیدیں
کہ جیسے سب کو ساحل نے بلایا تھا

غلام محمد قاصر

Comments